عروج آرزو
عروج آرزو اپنا کمال داستان ٹھہرا
جو قاتل تھا وہی دیکھو ہمارا رازدان ٹھہرا
چلی چپکے سے آندھی اور ہوئی اشجار میں ہلچل
کہاں کا تھا مسافر اور آکر ہے کہاں ٹھہرا
نہ رستے زخم سہلاؤ او نہ پوچھو حال دل اپنا
بھروسہ جس پہ تھا ہم سے وہی تو بدگمان ٹھہرا
جسے دل میں بسایا تھا جسے سوچوں کی مخمل میں
یہاں ٹھہرا وہاں ٹھہرا نہ جانے وہ کہاں ٹھہرا
کسک سی ہے طبیب عشق ہم کروٹ نہیں لیتے
نہ جانے کون سے پہلو میں اپنا مہربان ٹھرا
فقط کچھ دھڑکنیں ہیں اور تو کچھ بھی نہیں نازش
بنا جو عشق کا تاج محل دل کا دھواں ٹھہرا