اب خلوص ہم کو میسر نہیں رہا
اب خلوص ہم کو میسر نہیں رہا
اپنے ہی سامنے جب اپنا گھر نہیں رہا
بے یقینی کی دھند پھیلی ہے ہر سُو
عشق سا ہَمسر بھی ہم سَر نہیں رہا
نظر نے طواف کیا جب حُسنِ یوسف کا
پھر سامنے دوسرا کوئی منظر نہیں رہا
جو کُود گیا عشق کی آگ میں موسیٰ
پھر ان کو فرعون کا بھی ڈر نہیں رہا
عجب بے وفائی کی جاہ ہے دنیا
اب تو دل بھی ہمارا دلبر نہیں رہا
ترکِ محبت کی اس تکلیف کے بعد
غمِ دنیا کا اب ہم پر اثر نہیں رہا
غم دنیا کا اب کوئی ہم پر نہیں رہا
تصیح کرلیں یہ ترتیب بنتی ہے