آنکھ سے کہتی
سب کچھ یہ آنکھ آنکھ سے کہتی تو ٹھیک تھا
پردے کی بات پردے میں رہتی تو ٹھیک تھا
رخسار پہ یوں غموں کا نمایاں فطور تھا
ندی آنسوؤں کی دل میں ہی بہتی تو ٹھیک تھا
بے تاب زندگی نے کیا منتشر اسے
چپکے سے دکھ یہ سارے ہی سہتی تو ٹھیک تھا
یہ بھی کلی دید کو کھلتے پھول سارے
مسکا کے یہ کلی نہ مہکتی تو ٹھیک تھا
رونا ہے دوریوں کا سلگتی ہیں قربتیں
نظریں نہ حسن دیکھ بہکتی تو ٹھیک تھا
کرتی ہے آہ و زاریاں بلبل یہ رات دن
پھولوں سے مل کے نازش چہکتی تو ٹھیک تھا