آنکھیں مری ہیں آج بھی نمدار ، دلربا
آنکھیں مری ہیں آج بھی نمدار ، دلربا!
جو خوب تھے وہ ہو گٸے عیّار ، دلربا!
پچھلا پہر ہے رات کا معلوم ہے تجھے
اک دل ہے تیری یاد میں بیدار ، دلربا!
کچھ عرصہ پہلے تیرے ہی ساٸے کا تھا ادب
لگتے نہیں اب آپ بھی دلدار ، دلربا!
میری طرف سے ہوتی ہیں باتیں ہزار پر
تیری طرف سے خامشی ہر بار دلربا!
ملتے نہیں ہیں آپ بھی تو خاک میں جاٸے
تیرا دیدار و حسرتِ دیدار ، دلربا!
تیرے مکالمے کی ضرورت نہیں مجھے
تم سنگ دلی سے ہو گٸے سرشار ، دلربا!
ہاں! آج میرے منہ میں ذرا تلخی سی رہی
جاناں! یہ کچھ نہیں ہے ، یہ ہے پیار دلربا!