بے رخی سے کلام کر رہے ہو
بے رخی سے کلام کر رہے ہو
عشق کا اختتام کر رہے ہو
میرے دل سے چلے گئے تھے تم
کس کے دل میں قیام کر رہے ہو
مدتوں بعد ملنے آیا ہوں
دور سے ہی سلام کررہے ہو
باغ میں کس سے ملنے آئے ہو
جو سنور کے خرام کر رہے ہو
اپنی تلوار سی نگاہوں سے
میرے دل کو غلام کر رہے ہو
اس کی یادوں میں کیوں اسامہ تم
اپنا جینا حرام کر رہے ہو