بچھڑے لوگ
وہ جو لوگ مجھ سے بچھڑ گئے میری زندگی کا سامان تھے
میری یادوں کی قید میں میرے درد کا بیان تھے
چلو جو بھی کیا اچھا ھی کیا انہوں نے میرے ساتھ
خفا ان سے بھی نہیں ھوں جو میری محفلوں کے مہمان تھے
افسوس اس بات کا ہے کوئی اک شخص بھی نہ سمجھ سکا مجھے
خیر گلہ ان دوستوں سے بھی نہیں جو کبھی میری جان تھے
لگا کر آس بیٹھ گیا ھوں چوکھٹ پر
اور چوم رہا ھوں لبوں سے اس جگہ کو جہاں کبھی اس کے پاؤں کے نشان تھے
میں اپنے شہر میں محبتوں کا اک ہی بیوباری ھوں
یہ جو سارے لفظ تھے میرے جذبوں کی دکان تھے
چلو اچھا ھی ھوا ان کے جانے سے نیا درد غم مل گیا “اجنبی” مجھ کو
ورنہ کیا منہ دیکھاتا ان کو جو میری تنہائیوں کے رازدان تھے