بلبل کا جگنو
دنیا کی تاریکی میں گم تھا میں, کہ اک جگنو بولا کہ آخر ہم اپنے آنگن کا دِیا کیوں بجھاۓ بیٹھے ہیں ہم بولے کہ ہماری زندگی کے سب ارماں ہی بکھر گئے وہ جو ہمیں کبھی اپنا کہا کرتے تھے، نجانے کدھر گئے؟ اب زندگی کی اندھیر نگری میں _ میں بھٹک گیا ہوں اور تقدیر کے سوالوں کی سولی پہ میں _لٹک گیا ہوں کبھی دیکھتا تھا پروان کے __اب خواب دیکھنے سے ڈرتا ہوں دل کو پھر کہیں گماں نہ ہو جاۓ، اب سونے سے میں ڈرتا ہوں جگنو بولا، کہ اے ناداں تُو آخر گبھراتا ہی کیوں ہے اپنے اس معصوم دل کو آخر _ تُو رلاتا ہی کیوں ہے اور بولا کہ کیا ہوا گر ترے آنگن کا دیا بُجھ گیا ہے اور کیا ہوا گر تری حسرتوں کا سلسلہ الجھ گیا ہے ہوا کے دوش پر پڑا تھا ترا دیا، اِسے بُجھنا تو تھا ہی ڈورِ دنیا میں پھنسا تھا، امیدوں نے الجھنا تو تھا ہی تو آغازِ منزل کر، تجھے نہیں بھٹکنے دے گا ___ یہ جگنو تاریکی کے اس گہر میں تجھے نہیں اٹکنے دے گا یہ جگنو ہم نے بھی پوچھا کہ اے جگنو تو بھی تو دن سے گھبراتا ہے آفتاب کی چمک سے تُو اپنے چراغ کو ________ چُھپاتا ہے ہمیں تاریکی سے خوف آتا ہے تو کیا تو روشنی سے نہی کتراتا؟ پھر کیوں تُو اقبال کے بلبل کا چراغ بن کر اپنے ہنر پہ ہے اتراتا مسکرا کر بولا ارے اے ناداں شاید تو جانتا نہی مصلحتِ خدا کو تو غلط ہی پرکھتا رہتا ہے ہمدردی کرنے والوں کی _____ ادا کو دن بھر تلاش کرتا ہوں میں ________ اپنی منزل کو اور رات بھر روشن کرتا ہوں میں _____ تری منزل کو تاریکی کے آنچل میں چھپے رازِ خدا کو اب جا کر ہے سمجھا خود کو خودہی میں ڈھونڈنا ہے، اس حقیقت کو اب ہے پرکھا بنجارے کو بھی منزل مل ہی جاتی ہے __ پس یقیں کامل ہونا چاہیے جس بھی عزم کی بنیاد ہے رکھنی پس اس میں دل شامل ہونا چاہیے |
اصفیٰ تراب
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 4.3 / 5. Vote count: 141
No votes so far! Be the first to rate this post.