رنجیدہ دل
فکر وعمل کو وسعت گریبان جب پاتا ہوں میں
نظارہ لا حاصل پہ رنجیدہ دل ہو جاتا ہوں میں
نشیب و فراز ملت کو دیکھتا ہوں جب
روح زخمی پہ تب بلبلاتا ہوں میں
جزبہ حریت دل ملت سے محو ہوا جائے ہے
جواب دہی پہ خود کو پریشاں پاتا ہوں میں
افکار اجداد رفتہ پہ نگاہ پڑتی ہے جب
بن کے اشک شرمندگی آنکھ سے ڈبڈباتا ہوں میں
کامرانئ حیات نا پائیدار پہ شاداں ہیں وہ
خیال خام سے گوشہ تنہائی کو بہلاتا ہوں میں
تذکرہ ہوتا ہے سر عام عشق و محبت کا جب
بے عملی اپنی پہ خود ہی شرماتا ہوں میں
شب وروز ڈستے ہیں آلام زمانہ مجھ کو
اپنی تنہائی نا چیز کو سجدوں سے سجاتا ہوں میں