تیرا غم
ریگزار ِ حیات میں گردِ سفر ہونا تھا
شاید میرے عشق کو بھی امر ہونا تھا
قیدِ ذات سے سفرِ کائنات طے کرنے کو
مجھ کو میری ذات سے بےخبر ہونا تھا
تیرے ہجر کے غم سے گزر کرہی۔
مجھے آشنائے مقامِ صبر ہونا تھا
اس دھوپ دھوپ سی زیست میں
اُس کو اک شفیق سا شجر ہونا تھا
تیری پکار سن کر بھی جو نہ سنی
تیری ماہی کو معتبر جو ہونا تھا