You are currently viewing C03-E15: Meri Saari Likhai Ka He Ik Unwan Tera Gham

C03-E15: Meri Saari Likhai Ka He Ik Unwan Tera Gham




“میری ساری لکھائی کا ہے اِک عنوان “تیرا غم

“میری ساری لکھائی کا ہے اِک عنوان “تیرا غم

سہل ہے یہ بہت، لکھنا نہیں آسان تیرا غم


اگر میں لاکھ چاہوں تو نکلتا میں نہیں اس سے

کہ اب تو بن گیا میرے لیے زندان تیرا غم


مجھے برباد کر ڈالا مگر میں پھر بھی زندہ ہوں

میرے اس بات پہ اب خود بھی ہے حیران تیرا غم


بہت مجھ کو رُلایا ہے مگر پھر ترس کھا کر اب

میرے چہرے پہ لاتا ہے یہ اِک مسکان تیرا غم


بہا کر لے گیا یہ ساتھ اپنے میری خوشیوں کو

میرے جیون میں آیا مثلِ طوفان تیرا غم


میں اس کے ساتھ سویا ہوں، میں اس کے ساتھ جاگا ہوں

میرا کھانا، میرا پینا، میرا پکوان تیرا غم


میں راتوں کو اکیلا بیٹھ کر اس کو بھلاتا ہوں

تو ہو جاتا ہے آنگن میں مِرے رقصان تیرا غم


بہت برسوں سے میں نے تیرے غم کو پال رکھا ہے

مگر ہر روز لگتا ہے مجھے انجان تیرا غم


میرے دل کے علاوہ اس نے پہچانا نہ اپنا دَر

کہ آئے بِن بُلائے جیسے اِک مہمان تیرا غم


میری محفل رہے یوں ہی تِرے غم سے مِری جانم

تمہی ہو پیکرِ عظمت، عظیم الشان تیرا غم


چھپا کر ہم نے سینے میں بہت احتیاط سے پالا

صنم میرے لیے یاقوت و مرجان تیرا غم


میری سوچوں پہ اب تو حکمرانی ہے تِرے غم کی

میں خادم ہوں بس اس کا، اور ہے سلطان تیرا غم


مجھے تو کم سے کم ہر پل تِری ہی یاد دلاتا ہے

یہی تو کر رہا ہے مجھ پہ اِک احسان تیرا غم


میرا ہر اِک شعر منسوب تیرے غم سے ہے جاناں

“کہ اب انجمؔ لکھے گا ایک ہی دیوان “تیرا غم

محمد نوید انجمؔ

 

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 1.7 / 5. Vote count: 3

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply