کوچ کر گئے سب جگنو ہوا کچھ بھی نہیں
کوچ کر گئے سب جگنو ہوا کچھ بھی نہیں
چھا گئے اب ہیں اندھیرے ہوا کچھ بھی نہیں
فقط آنکھوں کے روابط تھے ہوا کچھ بھی نہیں
طلبگارِدید تھے اس کے سوا کچھ بھی نہیں
عشق و حسن کی زباں میں قباحت ہے وگرنہ
یہ دردِ نالہء و فریاد کے سوا کچھ بھی نہیں
ہرسو دامن کو پھیلا کے بھی دیکھا ہم نے
آہ بجز تیروسناں کے ہم کو ملا کچھ بھی نہیں
تیری گفتار سمجھ آتی نہیں ناصح مجھ کو
صدائےخوفِ فراق کےسواہم نےسناکچھ بھی نہیں
قابلِ دید ہے شیوہء شیفتگی ان کی
ہم سے وہ ایسے ملے جیسے ہوا کچھ بھی نہیں
محوِ غم دوش نہ ہو اے دلِ ناداں میرے
فقط انکی دید کے تیری دوا کچھ بھی نہیں
رِفعت فاطمہ
This post is not added to the contest. Please check your email.
ADMIN