دم
جو کہا اسے وفا وہ ہےجومحبت میں مر کر ہی دم لے
کہنے لگا مر کر بھی کیا کبھی کوئی دم لیا کرتا ہے
تو وفا کا سوچ، مر گئے تو دم بھی بھر لے گے
نہ سوچ تو اس دم کا، ہم وہاں تک نہ چل سکے گے
یہ سوچ کا سفر نہیں، یہاں تو وفا کا گزر ہے
کسی راہگیر کو کیا خبر یہ کیسا سفر ہے
گر راہگیر آیا اس راہ، سو ہم سفر سا لگتا ہے
راہگیر بنے ہم سفر، تو بے مقصد سا سفر لگتا ہے
جب سفر بے مقصد ہوا، وہ دم یہی آن پہنچا ہے
ہم لوٹ چلے، منزل دم تو یہی آن پہنچا ہے
یوں معلوم ہوا مرنے کے بعد بھی دم بھر لیا کرتے ہیں
بعد بخبر ہے مگر بے وفائی پہ دم بھر لیا کرتے ہیں