درد میں درد بڑھے
درد میں درد بڑھے درد تو کچھ اور ہو
خوب جمے عشق والوں کی محفل آہ و فغاں تو کچھ اور ہو
بے خودی سے چھا جائے جاں لبوں پر بلبلائے
ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے جگر سرور تو کچھ اور ہو
عالم تنہائی میں پچھلی رات کا ہو پہر
دشت کی ہو ویرانگی خوف تو کچھ اور ہو
مئے خانے کی دہلیز پر کٹ مرتے ہیں دیوانے
قفل ابھی بند رہے ہجوم تو کچھ اور ہو
اے باد باراں نہ برسنا ابھی تڑپنے دو
صحرا کی مانند بن جاؤں پیاس تو کچھ اور ہو
آتش عشق میں جل کر راکھ ہو گۓ کتنے ہی عاشق
آؤ ذرا تم بھی اے جبیں شور تو کچھ اور ہو