دل منتظر کس ملاقات کا ہے
دل منتظر کس ملاقات کا ہے
تریے اندر کا یہ خلا کیا ہے
ہجر کی دھوپ نے جلایا تو جانا ا
تپتی ریت پر چلنا کیا ہے
چپ سی شامیی وخشت زدہ راتیں
اب جانا عشق کی انتہا کیا ہے
ترے اندر کیا ہے ۔باہر کیا ہے
تیری ذات کا بتا اپنا کیا ہے
بھٹکی بھٹکی روحوں کی
تجھے پتا ہہے ،غزا کیا ہے
عشق مجازی سے عشق حقیقی کا
اک یہ نیا سفر کیا ہے
تریی بے سکونی کی وجہ کیا ہے
تیرے رب سے ملنے کا پتا کیا ہے
حقیقت کیا ہے ۔ مجاز کیا ہے
مالک کی جانے رضا کیا ہے
ہر قضا وقدر کا مقصد
رب کی جانب ہی مڑنا ہے