اشاروں سے جب بات ہوتی ہے
اشاروں سے جب بات ہوتی ہے
اس میں دل کی مات ہوتی ہے
ہے فطری ابھرنا جزبہ عشق کا
محبت کی کہاں ذات ہوتی ہے
ہے یہ اک اندھی تقلید کا جزو
جس طرح سیاہ رات ہوتی ہے
وعدہ جھوٹا نیتا کی طرح بھی
جیسے بےموسم برسات ہوتی ہے
رخ پیار کا بہت ہی پاکیزہ ناصر
جاننے میں بھی گھات ہوتی ہے