گمنام راہوں پر
رکھ چھوڑے ہیں دیے گمنام راہوں پر
چاہتی ہوں ہر کسی کو راستہ معلوم ہو
ہر طرف برپا ہے تلاطم ظلم کا یہاں
رہبر آئےایسا بھی جسے انصاف کا طریقہ معلوم ہو
عشق کوئی شکار نہیں جو لگے تیر نشانے پر
کاش کہ عاشق کو بھی عشق کا سلیقہ معلوم ہو
ہم تو ٹھہرے سدا کے خود غرض بے وفا لوگ
پر ملا نہیں اک بھی جسے وفا کا صلہ معلوم ہو
رکھا ہے ہر ایک کو ہم نے الگ پیمانے پر
چاہتی ہوں ہر کسی کو اپنا مرتبہ معلوم ہو
بہت جی لیا فانی زندگی کو ہم نے زمان
بس اب موت کو بھی ہمارا پتہ معلوم ہو