حسرت
دل میں حسرت ہے کہ وہ نہ ہوا جو ہو سکتا تھا
جس گل کی تمنا ہے بیج اس کا میں بو سکتا تھا
طبع نازک کا خیال کیا جو نہ اٹھائے قدم بروقت
تھی جسم میں قوت ایسی کہ بوجھ ڈھو سکتا تھا
غم جاناں بھے تھے غم دوراں بھی مگر پھر بھی
لوح قلب کچی تھی جب تک میں دھو سکتا تھا
نکلے نہ آنسو یہ سوچا جب کہ ہنسے گا زمانہ
ہنستے وہ بلا سے مری میں تو رو سکتا تھا
سب کھویا تھا جنہیں پانے کے لیے بارہا میں نے
انہوں نے مجھے کھو دیا میں بھی انہیں کھو سکتا تھا
شکوہ تھا اہل زمانہ سے کہ غافل سو رہے ہیں
بہتر تھا جو ہوجاتا غافل میں بھی سو سکتا تھا
دماغ جواں روح توانا جذبہ زندہ بلالؔ کا اس وقت
درد دل کو سچائی سے شاعری میں سمو سکتا تھا
Wah wah wah… Beautiful composed and deeply touched 👍🏼👍🏼 Good Luck Brother
Nice