حیراں ہوں زمانے کی ہر بدلتی ہوئی چال سے
حیراں ہوں زمانے کی ہر بدلتی ہوئی چال سے
سب کچھ الجھتا جا رہا ہے وقت کے جال سے
خیریت پوچھنا تو اِک دکھاوا ہے بس
ورنہ کون واقف ہے کسی کے حال سے
کیا تو نے سُنا ہے اُس کی خاموشی کو
لگتا ہے کوئی چیخ رہا ہے اُس کے اندر ملال سے
زخمی قدموں سے دوڑتے ہوئے بھی گر ہار گئی تو
کانپ اٹھتی ہے میری روح اِس خیال سے
جواب کی کھوج میں سب چل دیے ہیں
جبکہ کوئی واقف نہیں ہے میرے سوال سے
دعوےدار تھے جو زیست کے ستم جھیلنے کے
انہیں کر دیا ہے لاجواب اپنی مثال سے
وفا کے متلاشی بن کہ نہ عمر اپنی اُجاڑو
زندگی دے جائیگی دغا،گردشِ ماہ و سال سے
یہ جس طرح سے جیت کے گھمنڈ سے چہک رہے ہو
تم زیادہ دور نہیں ہو اپنے زوال سے
ہر دن کو نئی اُمید کے سنگ جیتے جیتے ، صبغہ
دِل بیزار ہو چکا ہے زندگی کے جنجال سے
Sibghah Nosheen
This post is not added to the contest. Please check your email.