جالِ محبت
جالِ محبت ایسا بچھایا گیا تھا
چراغوں کو یکسر بجھایا گیا تھا
ہم بھلا کیسے ہو گئے بے وفا
ہمیں توگھٹی میں پاسِ وفا سکھایا گیا تھا
ہم اس قدر بھی تو سنگدل نہ تھے
جو یوں سرِ راہ ستایا گیا تھا
یوں تو نہ تھے بہت چاہنے والے مگر
جو تھے ان سے بھی آزمایا گیا تھا
خود کو ہی دوش دیتے رہے عمر بھر
نہ کسی کو منا سکے نہ ہمیں منایا گیا تھا
کس طرح بجھا دیتے ان کی یادوں کو
جنہیں عرصے سے دل میں جلایا گیا تھا
منافقت عیاں تھی چہرے پر ان کے
نہ پوچھیے ہم سے کیسے ہاتھ ملایا گیا تھا
کیسے نہ ہوش میں آتے جناب
آئینہ ہم کو سچا دکھایا گیا تھا
میں کیونکر سمجھوں برتر خود کو زمان
بھولی نہیں ابتدا اپنی مجھے مٹی سے بنایا گیا تھا۔