جان لو جھوٹ سو مرتبہ نہ چلے
جان لو جھوٹ سو مرتبہ نہ چلے
اور یہ بھی کہ سچ ہر دفعہ نہ چلے
گرد ِ نفرت سے ہر فرد کا دِل اٹے
گلشن دہر میں وہ ہوا نہ چلے
روز کپڑوں کے جیسے بدلتے بدن
آج کے دور میں بس وفا نہ چلے
بس یہی اِک ہنر سیکھ پائے نہیں
غم چھپایئں کسی کو پتہ نہ چلے
پاس آتی نہیں منزلیں خود بہ خود
منزلوں کی طرف راستہ نہ چلے
بہ ایمانی سیاست ہیں یوں ہم قدم
کہ بنا ایک کے دوسرا نہ چلے
جو کیا ہے شروع تو مکمل کرو
چھوڑنا کرکے یوں ابتدا نہ چلے
Umda
Behad shukriya.
Very brilliant