جگنو۔۔استقبالیہ نظم
( جب ایک رات کہیں جگنوؤں کا پہرہ تھا)
چراغِ دل کو ہتھیلی پہ ہم جلا بیٹھے
جو دور تھے وہ بھی اپنے قریب آ بیٹھے
اندھیری رات میں محفل عجب سجا بیٹھے
ہر ایک دل میں امیدوں کا نور ٹھہرا تھا
جب ایک رات کہیں جگنوؤں کا پہرہ تھا
گماں ہوا جو سویروں کا لمحہ بھر کے لئے
چلے مسافر خستہ بھی اپنے گھر کے لئے
تھے منتظر جو کسی خوبرو سحر کے لئے
عجب ہی نور سے پر نور غم کا صحرا تھا
جب ایک رات کہیں جگنوؤں کا پہرہ تھا
یاس آ س میں بھنوروں نے سر جو ٹکرائے
ذرا سی دیر وہ اپنے کئے پہ پچھتائے
محبتوں نے یہ چاھت کے روپ اپنائے
نظر نہ آ سکا زخمَ جگر جو گہرا تھا
جب ایک رات کہیں جگنوؤں کا پہرہ تھا
شجر پہ اگنے بکھرنے کے درمیاں دیکھا
ہر ایک شاخ کو پتوں کا رازداں دیکھا
حیات و موت کا اک سلسلہ رواں دیکھا
مگر یہ آ دمِ خفتہ بہت بے بہرہ تھا
جب ایک رات کہیں جگنوؤں کا پہرہ تھا
فضا میں دور تلک لی ہوا نے انگڑائی
خزاں بہاروں میں بدلتی چمن کی رعنائی
گلوں کے روپ میں خوشبو نئی چلی آ ئی
ہوا وہ شاد میرا دل جو ایک صحرا تھا
جب ایک رات کہیں جگنوؤں کا پہرہ تھا
یہ جسدِ آ دمِ خاکی مکان دل کا تھا
سارا کھیل ہی نازش یہ آ ب و گِل کا تھا
قصور سارا ہر اک روح کی نکل کا تھا
ہمارے قلب میں جینے کا شوق ٹھہرا تھا
جب ایک رات کہیں جگنوؤں کا پہرہ تھا
مسز دستگیر نازش۔(پیار محل اردو پویٹری)
This Post Has One Comment
ماشاءاللہ۔۔۔۔
بہت عمدہ و بہترین سخن
حرف حرف موتی