You are currently viewing Jism Ka Boojh Uthaye Hue by Sadia Rizwan Alvi

Jism Ka Boojh Uthaye Hue by Sadia Rizwan Alvi




جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے روح ہے جانے کب سے

قلب و جاں،نین ویران ہیں میرے جانے کب سے

تجھ کو دیکھا ہی نہیں میں نے جانے کب سے


ہجر والے بھلا وصل کی تاب لانے لگے کب سے؟

اسی فلسفے پہ ملتوی ہےان سے ملاقات جانے کب


وہ تو چھوڑ گیا تھا مجھے جانے کب سے

میں ہی ساتھ تھی اس کے جانے کب سے


جدائی چاٹ گئی دیمک کی طرح جانے کب سے

جسم کابوجھ اٹھائے ہوۓ روح ہے جانے کب سے


تجھے دیکھنےوالے کوبھی دیکھانہیں جانے کب سے

ایسی ملاقات کابھی ارادہ نہیں تیرا جانے کب سے


تیرے لوٹ آنےکی آرزو بھی مر چکی جانے کب سے

خاک ہو گیا میں،میرا دل، میری آسیں جانے کب سے


ترک تعلق بھی نہیں تعلق بھی نہیں جانے کب سے

میں نہ مردہ ہوں، نہ زندہ ہوں جانے کب سے


أنسو دیکھ کے رک جاۓ گا ،یقیں تھا جانے کب سے

ان کوتووہ ڈھونگ سمجھنے لگا تھا جانے کب سے


محبت کا پتلا ظالم بن چکا تھا جانے کب سے

بے وفا ہو چکا تھا سعدی وہ وفادار جانے کب سے


سعدیہ رضوان علوی

 

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 4 / 5. Vote count: 6

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply