جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے روح ہے جانے کب سے
قلب و جاں،نین ویران ہیں میرے جانے کب سے
تجھ کو دیکھا ہی نہیں میں نے جانے کب سے
ہجر والے بھلا وصل کی تاب لانے لگے کب سے؟
اسی فلسفے پہ ملتوی ہےان سے ملاقات جانے کب
وہ تو چھوڑ گیا تھا مجھے جانے کب سے
میں ہی ساتھ تھی اس کے جانے کب سے
جدائی چاٹ گئی دیمک کی طرح جانے کب سے
جسم کابوجھ اٹھائے ہوۓ روح ہے جانے کب سے
تجھے دیکھنےوالے کوبھی دیکھانہیں جانے کب سے
ایسی ملاقات کابھی ارادہ نہیں تیرا جانے کب سے
تیرے لوٹ آنےکی آرزو بھی مر چکی جانے کب سے
خاک ہو گیا میں،میرا دل، میری آسیں جانے کب سے
ترک تعلق بھی نہیں تعلق بھی نہیں جانے کب سے
میں نہ مردہ ہوں، نہ زندہ ہوں جانے کب سے
أنسو دیکھ کے رک جاۓ گا ،یقیں تھا جانے کب سے
ان کوتووہ ڈھونگ سمجھنے لگا تھا جانے کب سے
محبت کا پتلا ظالم بن چکا تھا جانے کب سے
بے وفا ہو چکا تھا سعدی وہ وفادار جانے کب سے