کبھی کبھی
کبھی کبھی جدا رہو کبھی کبھی ملا کرو
کبھی ہو یاد یار کی کبھی ہنسو مزہ کرو
نہ عادتیں بگڑنے دو نہ سختیوں سے کام لو
کبھی تو ڈانٹ دو کبھی تو در گزر کیا کرو
حسد جلن کینہ کپٹ یہ ہے چھپی برائیاں
محاسبہ ہو نفس کا یہ دل میں نہ رکھا کرو
زوال کو عروج ہے عروج کو زوال ہے
جھکا کے سر چلا کرو نصیب سے ڈرا کرو
یہ دشمنی یہ دوستی یہ لفظ کا کمال ہے
عمرؔ سنبھل سنبھل کے ہی زباں سے کچھ کہا کرو