You are currently viewing Kya Tum Dekhte Nahi By Waqar Ahmed Qadeem

Kya Tum Dekhte Nahi By Waqar Ahmed Qadeem




کیا تم دیکھتے نہیں یہ نیم باز آنکھیں

کیا تم دیکھتے نہیں یہ نیم باز آنکھیں

اک عمر سے پابند سلاسل ہو چکی ہیں


چشم ترکی ہراک عنائت کھو چکی ہیں

تم دکھ کا ہر موسم اوڑھ کر آۓ ہو


مانا کہ زمانے سے منہ موڑ کر آۓ ہو

خوابوں کے جزیروں میں ٹھہری یہ سیماب آنکھیں


تمھاری حدت جاں سے سیراب ہو چکی ہیں

کھلے جنگل بیابانوں میں ساون کی برستی پہلی بارش کیطرح


پھولوں سے کوبکو پھیلتی ہرسو خوشبو کی طرح

اک عمر ہوئ یہ آنکھیں گلاب ہو چکی ہیں


خاموش میری زباں کا جواب ہو چکی ہیں

شوق ملاقات سے بے خبر ہے وہ شائد


نہ دیکھ سکے تماشہ دیدہ دل جہاں بینی وہ شائد

پر تم دیکھو افق کے اس پار کا منظر


رات پانیوں میں اترتے چاند کا منظر

خواب کی ہتھیلی پہ کھیلتا یہ د ن


شام کی پلکوں میں ڈوبتا وہ کندن

پہروں پہر ان جاگتی آنکھوں کے لیے


شائد ہو یہ اک پل بھر کا تماشہ ہی سہی

پر سنو تم


ہرعکس کو قید میں لاتی یہ آنکھیں

اب عمربھر کا عذاب ہو چکی ہیں


ہراک سوال کا جواب ہو چکی ہیں

پانیوں میں کھلتے کنول کی صورت


راتوں میں جاگتے ستاروں کی مانند

راہ جنوں میں دیدہ وروں کی خاطر


قدیم یہ آنکھیں اب مہتاب ہو چکی ہیں

قدیم یہ آنکھیں اب سیماب ہو چکی ہیں


وقار احمد قدیم

 

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 6

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply