کیا تم دیکھتے نہیں یہ نیم باز آنکھیں
کیا تم دیکھتے نہیں یہ نیم باز آنکھیں
اک عمر سے پابند سلاسل ہو چکی ہیں
چشم ترکی ہراک عنائت کھو چکی ہیں
تم دکھ کا ہر موسم اوڑھ کر آۓ ہو
مانا کہ زمانے سے منہ موڑ کر آۓ ہو
خوابوں کے جزیروں میں ٹھہری یہ سیماب آنکھیں
تمھاری حدت جاں سے سیراب ہو چکی ہیں
کھلے جنگل بیابانوں میں ساون کی برستی پہلی بارش کیطرح
پھولوں سے کوبکو پھیلتی ہرسو خوشبو کی طرح
اک عمر ہوئ یہ آنکھیں گلاب ہو چکی ہیں
خاموش میری زباں کا جواب ہو چکی ہیں
شوق ملاقات سے بے خبر ہے وہ شائد
نہ دیکھ سکے تماشہ دیدہ دل جہاں بینی وہ شائد
پر تم دیکھو افق کے اس پار کا منظر
رات پانیوں میں اترتے چاند کا منظر
خواب کی ہتھیلی پہ کھیلتا یہ د ن
شام کی پلکوں میں ڈوبتا وہ کندن
پہروں پہر ان جاگتی آنکھوں کے لیے
شائد ہو یہ اک پل بھر کا تماشہ ہی سہی
پر سنو تم
ہرعکس کو قید میں لاتی یہ آنکھیں
اب عمربھر کا عذاب ہو چکی ہیں
ہراک سوال کا جواب ہو چکی ہیں
پانیوں میں کھلتے کنول کی صورت
راتوں میں جاگتے ستاروں کی مانند
راہ جنوں میں دیدہ وروں کی خاطر
قدیم یہ آنکھیں اب مہتاب ہو چکی ہیں
قدیم یہ آنکھیں اب سیماب ہو چکی ہیں