منزل
جھیل کنارے شام ڈھلی ہے
ٹھنڈی سی اِک ہوا چلی ہے
چاند پانی کو دیکھ رہا ہے
لہروں میں اِسکی کھیل رہا ہے
مدھم گیت سُناتی چڑیا
گھر کو لوٹ کے جا رہی ہے…
اِس جھیل کنارے تنہا بیٹھے
میں چاند کو تکتی سوچ رہی ہوں
پرندوں کے تو گھر ہوتے ہیں
میرا کیا ٹھکانہ ہے, کِس منزل کی مجھے تلاش ہے؟
کِس رستے مجھے جانا ہے؟
اور کیا ہو اگر سب اُلٹا ہو؟
اگر اُڑتی چڑیا گِر جائے
یا گھر کا رستہ کھو جائے
پھر ہے کوئی جھیل کے اندر رستہ
یا کوئی اور سواری ہے؟
جو گِرتی بھٹکتی چڑیا کو منزل پار لگا آئے
نہ تو کوئی رستہ ہے , نہ کوئی اور سواری ہے
یہ دستور ہے جنگل کا
جب اُڑتی چڑیا گِر جاتی ہے
اُسے چیل اُٹھا کر لے جاتی ہے!
یہاں اِک بات ہے غور کے قابل
پرندوں کے جب تک پَر ہوتے ہیں
تب تک اُنکے گھر ہوتے ہیں
یاد رکھنا بھول نہ جانا
تم بھی خوف سے گِر نہ جانا
غور سے سُن لو, لکھ کے رکھ لو
پروں پہ اپنے یقین رکھنا
ہوا کا مقابلہ کرتی رہنا
ڈرنا مت , بس اُڑتی رہنا
رستے سب ہی کُھل جائیں گے
ہوائیں تمہیں خود رستہ دیں گی
منزل آخر مِل جائے گی
بس یقین رکھنا اور اُڑتی رہنا
عمامہ یوسف
This post is not added to the contest. Please check your email.