آزما کے دیکھ لو
آزمانا شرط ہے تو آزما کے دیکھ لو
اعتبار آتا نہیں تو پاس آکے دیکھ لو
یوں چراغوں کی کبھی ہوتی نہیں کم روشنی
بجھ کے بھی رہتے ہیں روشن تم بجھا کے دیکھ لو
راستے یہ پیار کے قدموں کے رکھتے ہیں نشان
چاہے اپنے آپ سے ہی دل لگا کے دیکھ لو
منتظر کب تک رہو گے چاہتوں کے شہر میں
پیاس ہو جائے گی کم آنسو بہا کے دیکھ لو
ہر کوئی کہتا ہے کہنے سے مگر مرتا نہیں
کیا ہیں قاعدے پڑھ کے تم شہرِ وفا کے دیکھ لو
چاند کی بدلی شکل بھی چاند ہی کہلائے ہے
بادلوں کی اوٹ میں چاہے چھپا کے دیکھ لو
خوب ہے نازش یہ خوابوں کی بھی دنیا بے ربط
ہاتھ کچھ آتا نہیں لاکھوں سجا کے دیکھ لو