ملاقات
ڈھلتا ہے دن ہوتی ہے اشکوں کی برسات
کرتے ہیں ہر شب تیری یادوں سے ملاقات
کیسا عجیب شام ہجراں کا تھا عالم
گھایل تھا دل ٹوٹ کے بکھری تھی میری ذات
ہوتا ہی نہیں دکھ کی سیاہی میں اجالا
رہتی ہے یہاں شان سے غم زدہ سی رات
آنکھوں میں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی چبھن ہے
اور من میں ہیں مدفون سارے مردہ جذبات
خود تو تمہارا حال ہے آباد و پرسکوں
اور تھام کے رکھتا ہے جنوں اب بھی میرا ہاتھ
تھم جائے گا ضرور یہ طوفاں بھی ایک روز
چھوٹے گا جب قلب سے دھڑکنوں کا ساتھ