ملاقات پھول
میرے گلستاں میں تھا پھول خوب
کہا کس رقیب نے اے پھول ڈوب
نکلی ہوں گھر سے اسے ڈھونڈ نے
لگی راستوں میں وہ بو سونگھنے
نگاہ جو ملایی ملا خود کا پھول
دوڈھی میں کرنا تھا یہ اب حصول
منظر کیا آگے دیکھو اصول
کہا باغبان نے ہوئی تجھکو بھول
جوں ہی ہاتھ آگے بڑھانے لگی
کلی دیکھ کر گنگنانے لگی
وآپس جو لینا ہے تمکو یہ پھول
درخواست تیری نہیں ہیں قبول
آنکھوں میں آنکھیں ملائی سہی
باغبان وہ کڑوا کھڑا تھا وہی
لیا جوں ہی دست میں بہایا لہو
باغبان نے کاٹ لیا کیسے کہو ں
سمجھ نہ سکھے دنیا والے قصہ
لینا یہ چاہتے پر دیتا خدا
suhailjabar
bhoot khaab