ملاقات
ملاقاتیں محض لب پہ سجی دعا ہوجاتی ہیں
یہ ہجرکی طویل راتیں سزا ہو جاتی ہیں
تصور میں چلے آنے کی آزادی جو بخش دوں تجھے
میری رنگین مزاجیاں میری خطاہوجاتی ہیں
میں اپنی ذات کواکثر بھول جاتا ہوں
جب میری نظریں تجھ پہ فدا ہو جاتی ہیں
آنکھ میں نقش تیرا پا کر دل بھی پگھل جاتا ہے
اور میری سب تمنائیں کیا سے کیا ہو جاتی ہیں
اور کبھی جو میں لوٹ جانے کی آرزو کرتا ہوں
کم بخت دل کی دھڑکنیں بے وفا ہو جاتی ہیں
سوچتا ہوں کہ، اک آخری نسخہ دعا بھی آزما لوں
کبھی کبھی منہ سے نکلی باتیں رب کی رضا ہو جاتی ہیں