پہلی ملاقات
وہ سردی کی ٹھٹھڑتی سی اِک شام تھی
ہاں وہی تیری میری پہلی ملاقات تھی
دو شہد سی وہ آنکھیں مجھے ٹھٹھکا گئ
بس بن بولے ہی مجھ کو اپنا جو بنا گئ
کچھ سمجھ ہی نہ آیا میں ڈوبا گیا
میں اُلجھتا گیا میں بہکتا گیا
نہ پوچھوں تھی کیا دل کی حالت
سنبھالے نہ سنبھالا جاتا تھا کمبخت
نہ جانے ہواؤں نے کیوں رُخ بدلا
اچانک کیوں پلٹ دی دل کی کایا
گلابی دہکتے اناری رخسار
کر گۓ مجھ کو یوں خاکسار
روکے نہ رکے پھر بس رُکا گیا
قدموں کو اُٹھاۓ میں بس چلتا گیا
وہ فقط پہلی مُلاقات تھی
تسلسل بھری پھر مُلاقاتیں تھیں