سایہء عاشقی
سایہء عاشقی میں یہ دل تھام بیٹھیئے
بہتر ہے اس جگہ سبھی بے نام بیٹھیئے
کہیں ڈگمگا نہ جائیں قدم بحر شوق میں
سب کچھ بھلا کے پیار کے انجام بیٹھیئے
یہ ہے نگار خانہء کئی دل جلوں کا دیس
صبح دوپہر یا ہو کوئی شام بیٹھیئے
کاٹے ہیں قیدوبند کے مراحل اس عشق نے
بعد از ضمانتوں کے کھلے عام بیٹھیئے
شائد تمہارا نام لکھا ہے دلوں کے بیچ
بہتر ہے سب کے سامنے گمنام بیٹھیئے
مے خانہء محبت تیرے نام ہیں عجیب
ہے اولین تقاضا بنا جام بیٹھیئے
نازش سجی ہیں ساری محبت کی محفلیں
اب ہو گا کیا نہ سوچیئے انجام بیٹھیئے
Heart touching specially this stanza “کاٹے ہیں قیدوبند کے مراحل اس عشق نے
بعد از ضمانتوں کے کھلے عام بیٹھیئے”