شب ملاقات
اے شبِ ملاقات تیرے انتظار میں
شمع پگھل رہی ہے پروانے کی آس میں
اچھا کیا سامان تو نے میری جگ ہنسائی کا
زبان زدِعام ہے قصہ تیری بے وفائی کا
لیلٰی بھٹکے ہے اب صحراؤں میں
اس جانب اب کوئی قیس نہیں آتا
اے رنگریز تیرے رنگ میں ہوں پور پور ڈوبی
اس دسمبر میں آکر کر دے میری رفو گری
میر کی غزل اور پہلی تھی ملاقات
تیرا نشہ تھا یا چاندنی رات کا خمار
نظریں تیری اٹھی رہیں
پلکیں میری جھکی رہیں
تو بِن کہے کہہ گیا ہر بات اپنی
میری سننے کا وعدہ اگلی ملاقات کا تھا
اس حسین ملاقات کا یہ انجام تھا
وہ میری پہلی شبِ ہجر کا آغاز تھا