You are currently viewing Shairi Hum Asri Shairi Aur Shairi ke Takazey

Shairi Hum Asri Shairi Aur Shairi ke Takazey




میرا مضمون 

شاعری ہم عصری شاعری اور شاعری کے تقاضے

شاعری فنون لطیفہ کی ایک ایسی صنف جو انسانی جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ حسن فطرت  کو بھی احاطہ کئے ہوئے ہے۔ یہ الگ بات ہےکہ ہر انسان اس کے دائرے  میں زندہ ہے مگر کوئی سوچتا کم ہے اور کام زیادہ کرتا ہے اور کوئی سوچتا زیادہ ہے اور عملی کام کم سر انجام دیتا ہے۔

زیادہ سوچنے والا کبھی سائنسدان بن جاتا ہے  کبھی محقق، تجزیہ نگار  اور کبھی جزبات کا کھلاڑی۔جزبات کا کھلاڑی ہی شاعر ہے اور شاعری وہ میدان ہے جہاں انسان مختلف طبقہ ہائے زندگی کے لوگوں کو اپنے مشاہداتی عمل سے گزارتا ہےاور پھر اس عمل کو حسن قلم دے کر شعر کہہ جاتا ہے

شعر ایک ایسا عمل ہے جس میں لکھنے والا کسی چیز کا نقشہ  اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اس کا بیانیہ اس چیز یا عمل کی موجودگی کا احساس ہونے لگتا ہے یہی ایک اصلی اور نسلی شاعری کی پہچان ہے ۔کسی عمل یا احساس کو اپنے الفاظ کا لبادہ اوڑھا نا کمال فن ہے

ہم عصری شاعری

ہم دیکھتے ہیں کہ کئی دہائیوں سے شاعری میں اکھاڑ پچھاڑ کا عمل جاری ہے۔ہوتے ہوتے آزاد شاعری آزاد سے نثری اور اب نثری شاعری سے بھی آگے تصویری اور فنی شاعری لکھنے والوں نے۔معزرت کے ساتھ۔۔۔ سارے لبادے اتار کر شاعری کو بازاری بنا دیا ہے

پہلے الفاظ  منظر نامہ بیان کرتے تھے اب اداکاری اور فنکاری ذریعہء  اظہار جزبات ہے  شاعری کا تو صرف سہارا لیا جاتا ہے۔ معزرت کے ساتھ۔

لیکن ابھی تک  چند قلم ایسے ہیں جو واقعی شاعری کے ترجمان ہیں نام تو بہت سے ہیں لیکن میں دونام جن میں دختر پاکستان محترمہ زیب ا لنسا زیبی صاحبہ اور جناب ریاض ساغر صاحب کا نام لوں تو کچھ غلط نہ ہو گابڑے بڑے نام جو واقعی شاعر کہلانے کے حقدار ہیں ابھی تک الفاظ سے ہر محل تعمیر کرتے ہیں

مگر  موجودہ اور جدید شاعری کا رحجان اسکاطریقہء عمل،اس کی ادائیگی،اسکا اظہار بیان کسی اور ہی دنیا کی نشاندھی کرتا ہے اور اسے میں بلا جھجھک عریانی کا نام دوں تو کچھ بے جا نہ ہو گا

ذھنی بالیدگی  اور پاکیزگی سے نکل کر شاعری شاعر بن گئی ہے

پہلے شاعر شاعری کرتے تھے اور اب  گنے چنے الفاظ۔ شاعر جنم دیتے ہیں

کیا یہ ہماری شاعری کے عصری تقاضے ہیں اس پر بحث اگلی تحریر میں یو گی انشا اللہ

مسز دستگیر نازش

Leave a Reply