سوتی جاگتی انسانیت کے نام نظم
مکڑا جیسے جال کے اندر
جیون ہے جنجال کے اندر
کیسے ہم بالوں کو سنواریں
قرضہ ہے ہر بال کے اندر
بن کر قیدی رہ گئے ہیں ہم
آ ٹا چاول دال کے اندر
سحر زدہ ہر چیز ہے لگتی
کھوٹ بھرا ہے مال کے اندر
پھر سے نجومی بتلاؤ تو
لکھا خانہء مال کے اندر
کھول کے دیکھیں سب تصویریں
جو ہیں سرخ رومال کے اندر
یاد ہے کوئی یاد پرانی
جو ہے ماہ و سال کے اندر
دھندلی سوچیں گدلائی سی
شور عجب سر تال کے اندر
چلو کہیں بیٹھیں پھر جا کر
کچھ نہیں ماضی حال کے اندر
نازش بس اتنا تو بتا دو
کیا رکھا سنبھال کے اندر