تحریریں کاغذوں پہ
تحریریں کاغذوں پہ لکھ لکھ کے پھاڑ دینا
حلیہ کتاب دل کا یوں نہ بگاڑ دینا
یادیں گلے لگانا اپنوں کی لمحہ بھر کو
کپڑوں کی طرح چاہے فورا ہی جھاڑ دینا
آسان نہیں ہے بستی دل کی آباد کرنا
کہنے پہ دھڑکنوں کے پھر نہ اجاڑ دینا
کاٹے تھے سرخ فیتے کتنے ہی موسموں کے
معلوم کیا تھا سب نے ہے کوڑوکباڑ دینا
الفاظ کی ادائیگی آنا بھی ہے ضروری
سیکھا ہے ہر کسی نے جذبے پچھاڑ دینا
کرتے ہیں ہم تو نازش سمجھوتہءمحبت
ہمیں پھر گرا نہ دے یہ لمحوں کا دھاڑ دینا