اک خون
اک خون ہے انسان کی عظمت کا ہی اعجاز
اک خون میں پنہاں ہیں محبت کے کئی راز
اک خون میں پلتے ہیں کئ دل کے یہ ارمان
اک خون بدلنے سے بدل جاتا ہے انسان
اک خون نگاہوں سے چھلکتا ہے صبح شام
اک خون دیتا ہے چھپے درد کا پیغام
اک خون کی گردش کا مقام قلب و جگر میں
اک خون کی ہلکی سی چمک شمس و قمر میں
اک خون میرے ہاتھ کی دھندلی سی لکیریں
اک خون میری عظمت رفتہ کی لکیریں
اک خون میں آمیزش ہے میرے رنج و الم کی
خوشیوں کی بہاروں کی میرے ظلم و ستم کی
اک خون سے سجتے ہیں محبت کے جھروکے
اک خون سے انسان کی عظمت کے جھروکے
اک خون نے دھرتی کو ہی سینے سے لگایا
اک خون نے انسان کو قاتلہ بنایا
اک خون بدل دیتا ہے تقدیر وطن کو
اک خون جنم دیتا ہے اس رنج ومحن کو
اک خون کو ملتی ہے چمک سوز جگر سے
اک خون کو بہتے ہوئے اشکوں کے سفر سے
اک خون کی خوشبو میں دفن بہروں سروسمن ہیں
اک خون کی سرخی میں شہید ان چمن ہیں
اک خون سے وابستہ روایا ت کہن سے
اک خون کی عظمت ہے جوانان وطن سے
جو دل سے نکلتا ہے نہ آنکھوں سے ٹپکتا
جو غم سے پگھلتا ہے نہ زخموں سے ہی رستا
بڑھتی ہے اسی خون سے سنسار کی عظمت
نازش تیری عظمت کسی فنکار کی عظمت