کانٹوں پہ چلنا
مشکل ہے کانٹوں پہ چلنا مشکل ٹھہرا
دل نے ان سے ٹیک لگائئ پاگل ٹھہرا
بیچ سمندر کھڑے رہے سانسیں روکے
آنکھ کھلی تو بن پانی ہر ساحل ٹھہرا
سوکھے پھول درخت فضائیں بے رنگت
برسا نہ جو برسوں تک تھا بادل ٹھہرا
جیسے ہو جھاڑی بیچ ویرانوں کے
آس امید کا تنکا ان کا حاصل ٹھہرا
پاؤں لہولہان ہیں اور سفر باقی
ہر انسان محبت کا ہی قاتل ٹھہرا
مشکل رستے دور تھی منزل بھی نازش
بڑی رکاوٹ مایوسی کا آنچل ٹھہرا