ہاتھ میں تصویر
ہاتھ میں تصویر تھی سب کو دکھاتے پھر رہے تھے
یوں تو ان کی یاد کو ان سے چھپاتے پھر رہے تھے
تھی خس و خاشاک سے بھرپور اپنی زندگی
پھر بھی ہم پتھر نما اک گھر بناتے پھر رہے تھے
کیا ہوا کیا نہ ہوا دل کو فقط صدمہ ہوا
ہاتھ زخموں پر تھا اور ہم مسکراتے پھر رہے تھے
کس قدر رنجور دل مجبور رستہ دور تھا
منزلوں کی راہ میں آنکھیں بچھاتے پھر رہے تھے
دو گھڑی سانسوں کا رشتہ پھر نہیں معلوم کیا
ہو ہمارا حشر ہم مرقد سجاتے پھر رہیں تھے
روئے تھے اک بار جو خاطر کسی کی اے رقیب
وہ گلی کوچوں میں اب سب کو رلاتے پھر رہے تھے
رحم کر دل پر طماچہ اب نہ مارو اور تم
اس پہ ہم تیرے ہجر کا بوجھ اٹھاتے پھر رہے تھے
جھوٹ ہے نازش جوانی اور فسانہ زندگی
تم کسے سچی کہانی پھر سناتے پھر رھے ھو