مزاج بدلا سماج بدلا
عجب سی ہر سوبےخوفیاں ہیں مزاج بدلا سماج بدلا
کسی کو کل کی نہیں ضرورت جو کل بدلنا تھا وہ آج بدلا
رکےہوئےہیں طوفان وپانی غریب کی جھونپڑی کے پاس
ہوائیں بدلیں فضائیں بدلیں ہر ایک رسم و رواج بدلا
کہاں ہیں سودوزیاں کی باتیں کہاں ہیں شرم وحیاکی باتیں
غریب کےبسترپہ فکرٹھہری امیر کے سر کا تاج بدلا
کہتے کہتے نہیں تھکتےغریب کی بےبسی کے قصے
سوال بن کے جو پاس آیا ہر ایک شے کا مزاج بدلا
نیا زمانہ نئی امنگیں نیا ستم نے لباس پہنا
بد ل ہی جائیں غریب خانےاگر طریقہء علاج بدلا
ہے حسن اتنا یہ عام ہرسوحسین عاشق کو ڈھونڈتا ہے
خوشی کو نازش تلاش نہ کر ہے کھیت بدلآ اناج بدلا