نفرتوں کے گھروندے
نفرتوں کے گھروندے سبھی توڑ کر
جینا سیکھو نئے سلسلے جوڑ کر
پھر اٹھا چاہتا ہے جنازہ کوئی
جی سکے نہ وہ اپنوں سے منہ موڑ کر
لاکھ ہیں اک بہانہ بنا لو کوئی
آ ملو رسم دنیا سبھی چھوڑ کر
حسن گلشن پہ حسن بہاراں بھی ہے
یوں نہ مسلوکسی پھول کو توڑ کر
ہے عجب چیز یہ بھی لہو کی کشش
آن ملتا ہے رشتہ نیا جوڑ کر
پھر نیا چاند نازش یہ نکلے کوئی
عید کا دن ہو ان سے ملیں دوڑ کر