شہر وفا
ہم سا کوئی نہیں تھا شہر وفا میں شاید
انہیں منظور کمی نہ تھی سزا میں شاید
گھٹتے بڑھتے رہے سایوں کی طرح درد یہاں
کوئی پھر بھول گیا اپنی دعا میں شاید
زندگی اتنا بھی اچھا نہیں لگتا یہ مذاق
تو نے رکھا ہے کوئی اورردا میں شاید
دل کو اپنی ہی وہ لگتی ہے شناسائی میں
کوئی خوشبو ہے ملی پھر سے ہوا میں شاید
پھر دھواں دل کی تمناؤں سے نکلا ہو گا
جانا پہچانا سا لگتا ہے فضا میں شاید
کیسے حالات سنورنے کا وسیلہ نکلے
خون ہی خوش نہیں جب اپنی بقا میں شاید
سر کو سجدوں سے یہاں روک نہ رکھو نازش
ابھی کچھ دیر تو باقی ہے قضا میں شاید