سنبھل سنبھل کے
سنبھل سنبھل کے چلے عمر بھر پھسلتے رہے
غم حیات بھی تیور سدا بدلتے رہے
چھپا لیا تھا جنھیں وادئ محبت میں
تھے اشک زار سبھی مضطرب نکلتے رہے
رہے یہ پاؤں سدا آبلوں کے جھرمٹ میں
قافلے تو بہت ساتھ ساتھ چلتے رہے
کوئ تو روکے یہ بڑھتے ہوئے اندھیروں کو
مسافروں کو جو بےدردی سے نگلتے رہے
محبتوں سے کہو روز روز مت چھیڑیں
سنبھل سکے نہ جو اس راہ میں سنبھلتے رہے
پھر ایک بار سجاتے ہیں مضمحل سوچیں
وفا کے نام پہ نازش سدا مچلتے رہے