سیاست دانوں کی وطن سے محبت
یہ مقتل یہ جنگیں شہر اور یہ مرگھٹ
یہ جلسے یہ جھگڑے یہ لوگوں کے جھرمٹ
کئی جن میں جاتے ہیں معصوم سرکٹ
یہی ہے مگر ان کی ملت پرستی
نہیں جن کو آکاش سے کچھ محبت
بسی ہے ہر اک دل میں ایسی کدورت
حکومت سے نفرت وطن سے عداوت
یہی ہے مگر ان کی ملت پرستی
وطن کے یہ حا می پرستار بندے
ابھی سو رہے ہیں یہ بیدار بندے
بہت لالچی ہیں یہ غمخوار بندے
یہی ہے مگر ان کی ملت پرستی
حکومت کا تختہ الٹنے کا سوچیں
وہ لیڈر کو ہر دم بدلنے کا سوچیں
نئی آگ میں پھر سلگنے کا سوچیں
یہی ہے مگر انکی ملت برستی
نہ کچھ سوچنا اور نہ کرنا جہاں میں
اگر ہو ضرورت کبھی کارواں میں
صدا رہنا گم اپنے ہی آشیاں میں
یہی ہے مگر ان کی ملت پرستی
عدو سے منگانا گھروں میں چھپانا
ہیں وہ بھی اسی دیس میں بھول جانا
کہےکوئی ان کو تو پھبتی اڑانا
یہی ہے مگر انکی ملت پرستی ہی
جلانا وہ دھرتی کا آنچل اٹھانا
سر شام ھی ان کا یوں لڑکھڑانا
اے نازش ذرا رخ سے پردہ اٹھانا
یہی ہے مگر ان کی ملت پرستی