اے محبت
اے محبت تو ہے شاہکار تو چھپتی کیوں ہو؟
ہر دھڑکتے ہوئے دل زار میں رکتی کیوں ہو؟
کر کے سودا کوئی بیکار سا انجانے میں
عشق کے شہر میں ہر بار ہی جھکتی کیوں ہو؟
جب بدلتے ہیں تیرے شہر وفا کے تیور
جلنے والوں کے بیاباں میں سلگتی کیوں ہو؟
پھول بھنورے تتلی شمع پروانہ ہے تو
کتنے ہیں روپ مگر خود سے ہی بیگانہ ہے تو
تیری یہ خاک مرکب ہے نہ جانے کس سے
جو بہت پھولتا پھلتا ہے وہ ایک دانہ ہے تو
ہے بسی سینہء انسان میں پیدائش سے
ہے کہیں رازکہیں نعرہء مستانہ ہے تو
کیا محبت تھی جو تخلیق جہاں تک پہنچی
روح میں ٹہر کے پھر سینہءانسان تک پہنچی
اور بکھری اس دنیا کے نہاں خانوں میں
بن کے اللہ کا فرمان محمد ﷺ کی زبان تک پہنچی
اے محبت تجھے میں کیوں نہ بساؤں دل میں
بن کے خوشبو تو سبھی ٹوٹے دلاں تک پہنچی
تیری گرمی تیری نرمی تیری عظمت کو سلام
جہاں پرواں ہے چڑھتی ایسی خلوت کو سلام
ٹوٹتے اور بکھرتے ہوئے انسانوں کو
جہاں تونے ہے سنبھالا اسی شفقت کو سلام
میں نے اس دل میں محبت کو سجا کر دیکھا
جہاں نازش یہ کھلیں پھولوں کی پربت کو سلام