شکستگی
ہوئے ہیں سلسلے سارے شکستگی کا شکار
ہوا جو عام محبت کا جھوٹا کاروبار
وفا کے نام پہ مطلب نکالتے ہیں لوگ
غریب کی تو یہ پگڑی اچھالتے ہیں لوگ
پڑی ہے اپنوں کے اندر دراڑ سی ایسی
یہ مال و زر نے ہے چادر سی تان دی ایسی
فضا میں گھوم گئے نفرتوں کے پیمانے
نہ میں تجھے نہ مجھے تو ہی آج پہچانے
فکر میں اپنے ہی بخیے ادھیڑتے ہیں یہ لوگ
لہو کی بوند کو ایسے ہی چھیڑتے ہیں یہ لوگ
شہر کے نامہ برو آج خط نہ پہنچائیو
ہیں نفرتوں سے بھرے واپسی پہ لے جائیو
کھڑا کیا ہے میرے واسطے جو پہرےدار
وہ سو گیا ہے سبھی بیچ کے میرے سنسار
کہو وہ کون ہے جس پہ ہم اعتبار کریں
اگر ملے تو اسے اپنا غمگسار کریں
ہوا ہے آتش دنیا میں آفتاب غروب
کہیں یہ چاند بھی جائے نہ چاند رات میں ڈوب
کسی سویر کے کاندھے پے آشیاں رکھ دو
کسی طرح سے یہ محفوظ زندگی کرلو
بچا سکو تو اے نازش بچا کے رکھ لو تم
سبھی چراغ محبت سجا کے رکھ لو تم