خواہشوں نے لوٹا
مجھے خواہشوں نے مارا مجھے آفتوں نے لوٹا
مہ و سال اور گزرتی ان ساعتوں نے لوٹا
ہمدرد ہمنوا تھے سارے ہی تھے سہارے
رہزن کوئی نہیں تھا ان راستوں نے لوٹا
کیا گلہ ہے کیسا شکوہ یہ بدلتے موسموں سے
آتی سنور سنور کے سب قسمتوں نے لوٹا
ہر کھیل کھیل دیکھا بے کار سی گلی میں
اونچی اڑان والی یہ محبتوں نے لوٹا
بکھرائے خود ہی کانٹے در آشنا پہ اس نے
زخموں سے چور ہوکر کہا دوستوں نے لوٹا
اہل جہاں رہوتم خوش ہے دعا یہ میری
بچتا نہیں ہے نازش جسے خواہشوں نے لوٹا