رشتوں کا اعتبار
رشتوں کے اعتبار کی بازی یہ ہار کر
آئے ہیں پاس تھوڑا سا تو اعتبار کر
اے چاند رات ٹھہر ذرا دیر ہی سہی
صبح تلک تو راہ میری خوشگوار کر
چھلنی بدن لہو سے بھرے دست و پا ہوئے
کانٹے ہیں راستے میں میرا انتظار کر
گر ہو ثبات عشق میں منزل تو مسکرا
نہ بے وفائے شہر میں اپنا شمار کر
بےکار ہیں یہ راہ و رسم اور دوستی
آپ نہ یوں کسی کے لئے دل فگار کر
پھر چاہے بھول جانا عمر بھر کے واسطے
دو چار ایک ساتھ یہ لمحے گزار کر
نازش ہمیں تو غیر سمجھ کر ہی لوٹ آ
خود کو نہ یوں اداس یہاں بار بار کر