غزل
کچی چھت پر بارشوں کا شور بھی اچھا لگا
ہم وہ سادہ لوح جن کو چور بھی اچھا لگا
شاہ زوروں اور زرداروں کے دلدادہ بہت
ہے فرشتہ خو جسے کمزور بھی اچھا لگا
بد زبانی اس نے کی پر اس سے مجھ کو کیا غرض
پاس سے دیکھا اسے تو اور بھی اچھا لگا
کشتی والے کب تلک کرتے سمندر سے گریز
پیاس اتنی تھی کہ آب شور بھی اچھا لگا
اسکو کیا دیکھا کہ اسکے ہو کے ہی ہم رہ گئے
عشق کا یہ طور اور فی الفور بھی اچھا لگا
اس نے کچھ دن سوچ کر گو عزت یارانہ کیا
کچھ دن اپنا نام زیر غور بھی اچھا لگا
حق کے رستے میں مدینہ یونہی آجاتا نہیں
قبل از صحرا وہ جبل ثور بھی اچھا لگا
نکلے ہیں بیبانی جھنجھٹ سے جو ہجر و وصل کے
اب ہمیں یہ بے تعشق دور بھی اچھا لگا
ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی
جدہ نامور محقق وشاعر ادبیات اقبال جدہ