میں اپنے ماضی کو دفنا ر ہی تھی ہر شام
وہ یاد جفاووں کا دلا رہا تھا ہر شام
میں خود کو پنجرے سے کھولنے لگی تھی
وہ ذنجیروں کو کس رہا تھا ہر شام
میں تھو ڑا سا مسکرانے لگی تھی
وہ اشق سے مجھے نہلارہا تھا ہر شام
میں راذ محبت کو چھپا نے لگی تھی
وہ اعلان ہر گلی میں کر رہا تھا ہر شام
میں منزل کو قریب سے دیکھنے لگی تھی
وہ راہوں کو کانٹوں کا لباس پہنا رہا تھا ہر شام
میں ہر ندی سے کھالی ہاتھ لوٹ رہی تھی
وہ آب کوثر سے پیاس مٹا رہا تھا ہر شام
کوثر فیاذ
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 4.7 / 5. Vote count: 12
No votes so far! Be the first to rate this post.