آخری ملاقات
مجھ کو سمیٹ لینے دو سوغات آخری
پلکوں سے موتیوں کی یہ برسات آخری
اے مرض لا علاج تو نے عمر چھین لی
مجھ کو تو ابھی جینے تھے جذبات آخری
چند پل کی زندگی ہے تو دو پل تو ٹھہر جا
کچھ تیرے ساتھ جی سکوں لمحات آخری
ٹوٹا ہوا ہوں میں مجھے کچھ حوصلہ تو دو
اس درد کو میں دے سکوں اک مات آخری
اک بار مسکرا کے مجھے دیکھ لو اگر
ہنس کے گزار دوں گا میں یہ رات آخری
ممکن ہے اب کے پھر کبھی کوئی گفتگو نہ ہو
گر ہو سکے تو پوچھ لو کوئی بات آخری
میں جا رہا ہوں لے کے انھیں اپنے ساتھ میں
آنکھوں میں رہ گئے جو سوالات آخری
اب روبرو ہوں مجھ کو تم جی بھر کے دیکھ لو
شائد ہے اس جہاں کی یہ ملاقات آخری
بہت خوب
Outstanding .
Great well done
Beautiful
بھئی ماشاء اللہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے کلام میں کیا خوب صورتی سے اپنے پروفیشن کا رنگ “مرض، علاج” وغیرہ سے بھر دیا ہے
excellent poem bhaiya
keeo it up